ہوسِ انقلاب ہے تاحال
سیلِ خوں کا حساب ادا نہ ہوا
مجھ کو اس سے حجاب ہے تا حال
دل نے اس کو لکھے ہیں سو مکتوب
انتظارِ جواب ہے تاحال
خواب تو اب نہیں ہے یاد مگر
فکرِ تعبیرِ خواب ہے تاحال
تو نے پوچھی نہ خیریت جس کی
حال اس کا خراب ہے تاحال
چارہ گر تو جو دیکھ آیا تھا
بس وہی اضطراب ہے تا حال
فاقہ مستو کماؤ نفعِ حلال
روزہ داری ثواب ہے تاحال
بے بجا وہ اگر برا مانے
عذر مستی شراب ہے تا حال
ہوں معاش فریب سے محروم
وہی قحط سراب ہے، تاحال
جون ایلیا