اور عجب طرح کر گزرتے ہیں
مارڈالیں اسے یہ ہے مقصود
سو میاں جی ہم اس پہ مرتے ہیں
میںہوں اس شہر میں مقیم جہاں
اپنے ہونے سے لوگ ڈرتے ہیں
رنگ ہی کیا ترے سنورنے کا
ہم لہو تھوک کر سنورتے ہیں
اپنے گنگ و جمن میں زہر تھا کیا؟
ہم سمندر کا دم جو بھرتے ہیں
ناؤ سمجھیں بھنور کو جونؔ جو لوگ
بس وہی ڈوب کر ابھرتے ہیں
جون ایلیا