کہ اس گلی میں گئے اب زمانے ہو گئے ہیں
تم اپنے چاہنے والوں کی بات مت سنیو
تمہارے چاہنے والے دوانے ہو گئے ہیں
وہ زلف دھوپ میں فرقت کی آئی ہے جب یاد
تو بادل آئے ہیں اور شامیانے ہو گئے ہیں
جو اپنے طور سے ہم نے کبھی گذارے تھے
وہ صبح و شام تو جیسے فسانے ہو گئے ہیں
عجب مہک تھی مرے گل ترے شبستاں کی
سو بلبلوں کے وہاں آشیانے ہو گئے ہیں
ہمارے بعد جو آئیں انہیں مبارک ہو
جہاں تھے کنج وہاں کارخانے ہو گئے ہیں