شہر خاموش ہے شوریدہ سروں کے ہوتے
کیوں شکستہ ہے ترا رنگ متاعِ صد رنگ
اور پھر اپنے ہی خونیں جگروں کے ہوتے
کار فریاد و فغاں کس لیے موقوف ہوا
ترے کوچے میں ترے باہنروں کے ہوتے
کیا دِوانوں نے ترے کوچ ہے بستی سے کیا
ورنہ سنسان ہوں راہیں نگھروں کے ہوتے
جز سزا اور ہو شاید کوئی مقصود ان کا
جا کے زنداں میں جو رہتے ہیں گھروں کے ہوتے
شہر کا کام ہوا فرطِ حفاظت سے تمام
اور چھلنی ہوئے سینے سپروں کے ہوتے
اپنے سودا زدگاں سے یہ کہا ہے اس نے
چل کے اب آئیو پیروں پہ سر وں کے ہوتے
اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر
کب پرند اڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے