ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے
ہر متاعِ نفس نذرِ آہنگ کی، ہم کو یاراں ہوس تھی بہت رنگ کی
گُل زمیں سے ابلنے کو ہے اب لہو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے
اولِ شب کا مہتاب بھی جا چکا صحنِ مے خانہ سے اب افق میں کہیں
آخرِ شب ہے خالی ہیں جام و سُبو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے
کوئی حاصل نہیں تھا آرزو کا مگر، سانحہ یہ ہے اب آرزو بھی نہیں
وقت کی اس مسافت میں بے آرزو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے
کس قدر زور سے ٹوٹ کر آئے ہیں، یوں کہو عمر برباد کر آئے ہیں
تھا سراب اپنا سرمایہِ جستجو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے
اک جنوں تھا کہ آباد ہو شہرِ جاں، اور آباد جب شہرِ جاں ہو گیا
ہیں یہ سر گوشیاں در بہ در کو بہ کو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
دشت میں رقصِ شوقِ بہار اب کہاں، بادہ پیمائی دیوانہ دار اب کہاں
بس گزرنے کو ہے موسمِ ہاؤ ہو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے
ہم ہیں رسوا دکن، دلی و لکھنو، اپنی کیا زندگی اپنی کیا آبرو
میر دلی سے نکلے گئے لکھنو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے