تم ذکرِ وفا نہ کیجیو اب
ملتے ہیں کہ شہر میں ہیں لیکن
ملنے کی دعا نہ کیجیو اب
کیا شے ہے وفا کی استواری؟
اس بات کو وا نہ کیجیو اب
بے لذتِ دید ہے نظارہ
تم مشقِ ادا نہ کیجیو اب
ہم سے نہ اُٹھے گا بارِ ایثار
غم ہو تو ہنسا نہ کیجیو اب
کہنے سے مری مراد یہ ہے
تم میرا کہا نہ کیجیو اب
ہے وصل سے جبر ہی تو منظور
اظہارِ رضا نہ کیجیو اب
جون ایلیا