وقت

وقت
بام اور یہ منظرِ سرِ شام
ہے کتنا حسین و عبرت انجام
مغرب کا افق دہک رہا ہے
دامانِ شفق بھڑک رہا ہے
تنور دھنے ہوئے ہوں جیسے
شعلے سے چنے ہوئے ہوں جیسے
یا آتشِ سرکشی سے جیسے
دولت کی قبائیں جل رہی ہوں
نسلوں پہ عذاب آرہا ہو
قوموں کی سرائیں جل رہی ہوں
سینوں میں جحیم گل رہے ہوں
ہونٹوں پہ صدائیں جل رہی ہوں
اترا ہے افق میں تازہ تازہ
خورشید کا بے کفن جنازہ
خاموشیء بام بڑھ رہی ہے
تاریکیء شام بڑھ رہی ہے
ہر درہ و در دھواں دھواں ہے
پہناے نظر دھواں دھواں ہے
احساس کے داغ جل اٹھے ہیں
کتنے ہی چراغ جل اٹھے ہیں
جیسے کوئی مل کے جارہا ہو
جیسے کوئی یاد آرہا ہو
جیسے کوئی جا کے بھول جائے
وعدہ ہو مگر کبھی نہ آئے
جیسے وہ مری متاعِ جاں بھی
بے نام ہو اور بے نشاں بھی
احساس ہے ابتلائے جاں ہا
اظہار ہے فتنۂ زباں ہا
ہے از حرمِ یقیں اک دھند
تاہیکلِ عظمتِ گماں ہا
از مشرقِ نفع و سودِ جلوہ
تا مغربِ ظلمت و زیاں ہا
ایسا ہے کہ یہ جہاں ہو جیسے
تجسیمِ فسونِ داستاں ہا
ایسا ہے کہ یہ مکاں ہو جیسے
آغوشِ وداعِ کارواں ہا
نادیدہ فضا میں کھو گیا ہوں
آپ اپنا خیال ہوگیا ہوں
ہے ذہن میں بیکراں زمانہ
بے جسم خرامِ جاودانہ
اقوام و ملل کی عمر ہی کیا
اک پل ہے سو پل کی عمر ہی کیا
ہم تھے یہ کسی قدر بجا ہے
ہم ہیں یہ خیال ہوگیا ہے
وقت آپ ہی اپنی جاں کنی ہے
آنات کی روح کھنچ رہی ہے
یہ ہستیء ناصبور کیا ہے
میں کون ہوں یہ شعور کیا ہے
آنات میں بٹ کے رہ گیا ہوں
نقطوں میں سمٹ کے رہ گیا ہوں
ہستی کا شہود ہی فنا ہے
جو ہے وہ تمام ہوچکا ہے
جو لمحہ ہے وہ گزر رہا ہے
فریاد کہ وقت مر رہا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *