زخم داران رہ دار کہاں ہیں جانے
ہر طرف شہر غم یار میں سناٹا ہے
شور مستان غم یار کہاں ہیں جانے
گھر سے جاتے ہیں خریدار پلٹ آتے ہیں
جنس کمیاب کے بیمار کہاں ہیں جانے
اے مسیحا ترے دکھ سے ہے سوا دکھ کس کا
کس سے پوچھوں ترے بیمار کہاں ہیں جانے
میرا کیا اپنا طرفدار نہیں میں خود بھی
وہ جو ہے اس کے طرفدار کہاں ہیں جانے
اپنے زخموں کو نہیں کوئی کھرچنے والا
کار جاناں ترے بے کار کہاں ہیں جانے
قافلوں کا ہے سرِ دشت ِ طلب کب سے پڑاؤ
ایلیا! قافلہ سالار کہاں ہیں جانے