جو کچھ یہاں درست ہے بیجا درست ہے
ہر چند خود وجود میں ہیں سو سخن مگر
موجود مستیِ دل و دیدہ درست ہے
وہ جسم موج خیز پیالہ وہ ناف کا
گِرداب، درمیانہِ دریا درست ہے
جو کچھ ہے بیچ میں ہے، اِدھر ہے نہ کچھ اُدھر
ہم نے جو کام بیچ میں چھوڑا درست ہے
گامِ سفر نے خوار کیا پا سیر کو
منزل نہ درمیاں ہو تو رَستہ درست ہے
آتا بھی ہے کوئی تو میں کہتا ہوں تُو نہیں
اب تُو مرے خیال میں تنہا درست ہے
میں کیوں بھلا قضا و قدر سے بُرا بنوں
ہے جو بھی انتظام خدایا درست ہے
ہے نیم منکروں کی معاش اِس سوال پر
جب کچھ نہیں درست تو پھر کیا درست ہے؟