تجھ کو اے جاناں! کہاں چاہا گیا
اپنے یاروں کے بس اِک نوکر تھے ہم
روز اک طرزِ بیاں ، چاہا گیا
میں تو پلٹا آگ لے کر اور یہاں
میری جیبوں میں دھواں چاہا گیا
زندگی تھی اپنے ہونے کا گماں
اپنے ہونے کا سماں چاہا گیا
تیرہ و تاری ، خلا کے درمیاں
روشنی کو بے اماں چاہا گیا
پھر کہاں تھا وصل کا امکان جب
مجھ کو میرے درمیاں چاہا گیا
رنگ تو جم کر رہا اُڑنے پہ بھی
نکہتوں کو بے نشاں چاہا گیا
جون ایلیا