اس گلی سے گمان کی، اُٹھ چل
مانگتے ہوں جہاں لہو بھی اُدھار
تو نے واں کیوں دکان کی، اُٹھ چل
بیٹھ مت ایک آستاں پہ ابھی
عمر ہے یہ اُٹھان کی، اُٹھ چل
کسی بستی کا ہو نہ پابستہ
سیر کر اِس جہان کی، اٹھ چل
دل ہے جس غم ہمیشگی کا اسیر
ہے وہ بس ایک آن ہی، اُٹھ چل
جسم میں پاؤں ہیں ابھی موجود
جنگ کرنا ہے جان کی، اُٹھ چل
تو ہے بے حال اور یہاں سازش
ہے کسی امتحان کی، اُٹھ چل
کیا ہے پردیس کو جو دیس کہا
تھی وہ لکنت زبان کی، اُٹھ چل
ہیں سیارے ابھی مداروں میں
یہ گھڑی ہے اَمان کی اُٹھ چل
ہر کنارہ خرامِ موج تجھے
یاد کرتی ہے بان کی، اُٹھ چل
جون ایلیا