اجنبی شام

اجنبی شام
دھند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر
اُڑ رہے ہیں پرند ٹیلوں پر
سب کا رخ ہے نشیمنوں کی طرف
بستیوں کی طرف، بنوں کی طرف
اپنے گلوں کو لے کے چروا ہے
سرحدی بستیوں میں جا پہنچے
دل ناکام! میں کہاں جاؤں؟
اجنبی شام! میں کہاں جاؤں؟
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *