تھک گیا ہے دل وحشی میرا فریاد سے بھی

تھک گیا ہے دل وحشی میرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تیری یاد سے بھی
اے ہوا کیا ہے جو اب نظم چمن اور ہوا
صید سے بھی ہیں مراسم تیرے ،صیاد سے بھی
کیوں سرکتی ہوئی لگتی ہے زمیں یاں ہر دم
کبھی پوچھیں تو سبب شہر کی بنیاد سے بھی
برق تھی یا کہ شرار دل آشفتہ تھا
کوئی پوچھے تو میرے آشیاں برباد سے بھی
بڑھتی جاتی ہے کشش وعدہ گر ہستی کی
اور کوئی کھینچ رہا ہے عدم آباد سے بھی​
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *