خوشبو میں آج کس کی نہائی ہوئی ہے رات
سرگوشیوں میں بات کریں ابر و باد و خاک
اس وقت کائنات پہ چھائی ہوئی ہے رات
ہر رنگ جس میں خواب کا گھلتا چلا گیا
کس رنگ سے خدا نے بنائی ہوئی ہے رات
پھولوں نے اس کا جشن منایا زمین پر
تاروں نے آسماں پہ سجائی ہوئی ہے رات
وہ چاند چھپ چکا ہے مگر شہر دید نے
اب تک اسی طرح سے بسائی ہوئی ہے رات
صبح جمال یار کے جادو کو دیکھ کر
ہم نے نظر سے اپنی چھپائی ہوئی ہے رات