کیا آگ سے ہے بنی ہوئی برف
پتھر کی سیاہ رو سڑک پر
شیشے کی طرح بچھی ہوئی برف
ہے شام کی سرمئی ردا پر
چمپا کی طرح ٹکی ہوئی برف
اندر سے سراپا آگ ہوں میں
باہر سے مگر جمی ہوئی برف
ہیں چست قبا شجر ہی ، یا ہے
ہمراہ بدن سلی ہوئی برف
لگتا ہے کہ شب دمک رہی ہے
مہتاب ہے اور کھلی ہوئی برف
مجھ پر کوئی ریت آ کے ڈالے
ویرانے میں ہوں پڑی ہوئی برف