پت جھڑ سے گلہ ہے نہ شکایت ہوا سے ہے
پھولوں کو کچھ عجیب محبت ہوا سے ہے
سرشارئ شگفتگی گل کو کیا خبر
منسوب ایک اور حکایت ہوا سے ہے
رکھا ہے آندھیوں نے ہی ہم کو کشیدہ سر
ہم وہ چراغ ہیں جنہیں نسبت ہوا سے ہے
اس گھر میں تیرگی کے سوا کیا رہے جہاں
دل شمع پر ہیں اور ارادت ہوا سے ہے
بس کوئی چیز سلگتی ہے دل کے پاس
یہ آگ وہ نہیں جسے صحبت ہوا سے ہے
صر صر کو اذن ہو جو صبا کو نہیں ہے بار
کنج قفس میں زیست کی صورت ہوا سے ہے