وعدہ سچا ہے کہ جھوٹا مجھے معلوم نہ تھا

وعدہ سچا ہے کہ جھوٹا مجھے معلوم نہ تھا
کل بدل جائے گی دنیا مجھے معلوم نہ تھا

حسن ہے مشغلۂ ظلم کو گہرا پردہ
پس پردہ ہے اندھیرا مجھے معلوم نہ تھا

عشق وہ شے ہے کہ چرکے بھی مزہ دیتے ہیں
ورنہ قاتل ہیں حسیں کیا مجھے معلوم نہ تھا

دل کی ضد اس لئے رکھ لی تھی کہ آ جائے قرار
کل یہ کچھ اور کہے گا مجھے معلوم نہ تھا

جھوٹی امیدوں نے کیا کیا نہ ہرے باغ لگائے
وقت جھونکا ہے ہوا کا مجھے معلوم نہ تھا

جتنے قسمت کے سہارے تھے وہ جھوٹے نکلے
ہے بندھی مٹھیوں میں کیا مجھے معلوم نہ تھا

برسوں بھٹکا کیا اور پھر بھی نہ ان تک پہونچا
گھر تو معلوم تھا رستہ مجھے معلوم نہ تھا

راز غم فاش نہ ہو اس لئے روکی تھی زباں
چپ بھی رہ کر یہی ہوگا مجھے معلوم نہ تھا

دل مزے لیتا ہے جس غم کے وہ ہے کاہش جاں
زہر بھی ہوتا ہے میٹھا مجھے معلوم نہ تھا

عشق آباد کے ناکے ہی سے رخصت ہوئے ہوش
ہے یہ دیوانوں کی دنیا مجھے معلوم نہ تھا

ہوگا امروز کی صورت میں ظہور فردا
وعدہ یوں روز ٹلے گا مجھے معلوم نہ تھا

آرزو ہاں بھی حسینوں کی نہیں ہوتی ہے
ان کی ہر بات ہے دھوکا مجھے معلوم نہ تھا

آرزو لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *