پانی میں آگ دھیان سے تیرے بھڑک گئی

پانی میں آگ دھیان سے تیرے بھڑک گئی
آنسو میں کوندتی ہوئی بجلی جھلک گئی

کب تک یہ جھوٹی آس کہ اب آئے وہ اب آئے
پلکیں جھکیں پپوٹے تنے آنکھ تھک گئی

کھلنا کہیں چھپا بھی ہے چاہت کے پھول کا
لی گھر میں سانس اور گلی تک مہک گئی

آنسو رکے تھے آنکھ میں دھڑکن کا ہو برا
ایسی تکان دی کی پیالی چھلک گئی

میری سنک بھی بڑھتی ہے ان کی ہنسی کے ساتھ
چٹکی کلی کہ پاؤں کی بیڑی کھڑک گئی

آرزو لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *