اختر جس نے عہد کیا تھا تم سے ساتھ نبھانے کا
آج ہمارے قدموں میں ہے کاہکشاں شہر مہتاب
کل تک لوگ کہا کرتے تھے خواب اسے دیوانے کا
تیرے لب و رخسار کے قصے تیرے قد و گیسو کی بات
ساماں ہم بھی رکھتے ہیں تنہائی میں دل بہلانے کا
تم بھی سنتے تو رو دیتے ہم بھی کہتے تو روتے
جان کے ہم نے چھوڑ دیا ہے اک حصہ افسانے کا
کچھ تو ہے جو اپنایا ہے ہم نے کوئے ملامت کو
ویسے اور طریقہ بھی تھا اختر دل بہلانے کا
اختر لکھنوی