اب دل کوئی پہلو ہو سنبھلتا ہی نہیں ہے
بے چین کئے رہتی ہے جس کی طلب دید
اب بام پہ وہ چاند نکلتا ہی نہیں ہے
اک عمر سے دنیا کا ہے بس ایک ہی عالم
یہ کیا کہ فلک رنگ بدلتا ہی نہیں ہے
ناکام رہا ان کی نگاہوں کا فسوں بھی
اس وقت تو جادو کوئی چلتا ہی نہیں ہے
جذبے کی کڑی دھوپ ہو تو کیا نہیں ممکن
یہ کس نے کہا سنگ پگھلتا ہی نہیں ہے
اختر لکھنوی