کاہے کو ایسے ڈھیٹ تھے پہلے جھوٹی قسم جو

کاہے کو ایسے ڈھیٹ تھے پہلے جھوٹی قسم جو کھاتے تم
غیرت سے آ جاتا پسینا آنکھ نہ ہم سے ملاتے تم

حیف تمہیں فرصت ہی نہیں ہے ورنہ کیا کیا حسرت تھی
حال ہمارا کچھ سن لیتے کچھ حال اپنا سناتے تم

ننگ ہے ملنا عار تکلم ایک زمانہ ایسا تھا
بزم میں اپنی ہم کو بلا کر عزت سے بٹھلاتے تم

ہم وہ نہیں یا تم وہ نہیں تم ہنستے ہو اور ہم روتے ہیں
یا ہچکی الٹی جاتی تھی جتنا ہمیں سمجھاتے تم

وضع بھی کوئی شے ہے آخر دل کو اثر سمجھانا تھا
در سے کسی کے اک بار اٹھ کر کاش دوبارہ نہ جاتے تم

اثر لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *