گستاخیوں کرے لب خاموش نقش پا
پائی مرے سراغ سے دشمن نے راہ دوست
اے بیخودی مجھے نہ رہا ہوش نقش پا
میں خاکسار عشق ہوں آگاہ راز عشق
میری زباں سے حال سنے گوش نقش پا
آئے بھی وہ چلے بھی گئے مری راہ سے
میں نا مراد والہ و مدہوش نقش پا
یہ کون میرے کوچہ سے چھپ کر نکل گیا
خالی نہیں ہے فتنوں سے آغوش نقش پا
یہ داغ کی تو خاک نہیں کوئے یار میں
اک نشہ وصال ہے آغوش نقش پا
داغ دہلوی