ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا
اپنے دل کو بھی بتاؤں نہ ٹھکانا تیرا
سب نے جانا جو پتا ایک نے جانا تیرا
تو جو اے زلف پریشان رہا کرتی ہے
کس کے اجڑے ہوئے دل میں ہے ٹھکانا تیرا
آرزو ہی نہ رہی صبح وطن کی مجھ کو
شام غربت ہے عجب وقت سہانا تیرا
یہ سمجھ کر تجھے اے موت لگا رکھا ہے
کام آتا ہے برے وقت میں آنا تیرا
اے دل شیفتہ میں آگ لگانے والے
رنگ لایا ہے یہ لاکھے کا جمانا تیرا
تو خدا تو نہیں اے ناصح ناداں میرا
کیا خطا کی جو کہا میں نے نہ مانا تیرا
رنج کیا وصل عدو کا جو تعلق ہی نہیں
مجھ کو واللہ ہنساتا ہے رلانا تیرا
کعبہ و دیر میں یا چشم و دل عاشق میں
انہیں دو چار گھروں میں ہے ٹھکانا تیرا
ترک عادت سے مجھے نیند نہیں آنے کی
کہیں نیچا نہ ہو اے گور سرہانا تیرا
میں جو کہتا ہوں اٹھائے ہیں بہت رنج فراق
وہ یہ کہتے ہیں بڑا دل ہے توانا تیرا
بزم دشمن سے تجھے کون اٹھا سکتا ہے
اک قیامت کا اٹھانا ہے اٹھانا تیرا
اپنی آنکھوں میں ابھی کوند گئی بجلی سی
ہم نہ سمجھے کہ یہ آنا ہے کہ جانا تیرا
یوں تو کیا آئے گا تو فرط نزاکت سے یہاں
سخت دشوار ہے دھوکے میں بھی آنا تیرا
داغ کو یوں وہ مٹاتے ہیں یہ فرماتے ہیں
تو بدل ڈال ہوا نام پرانا تیرا
داغ دہلوی