کن انکھیوں سے اس کو مگر دیکھ لینا
فقط نبض سے حال ظاہر نہ ہوگا
مرا دل بھی اے چارہ گر دیکھ لینا
کبھی ذکر دیدار آیا تو بولے
قیامت سے بھی پیشتر دیکھ لینا
نہ دینا خط شوق گھبرا کے پہلے
محل موقع اے نامہ بر دیکھ لینا
کہیں ایسے بگڑے سنورتے بھی دیکھے
نہ آئیں گے وہ راہ پر دیکھ لینا
تغافل میں شوخی نرالی ادا تھی
غضب تھا وہ منہ پھیر کر دیکھ لینا
شب وعدہ اپنا یہی مشغلہ تھا
اٹھا کر نظر سوئے در دیکھ لینا
بلایا جو غیروں کو دعوت میں تم نے
مجھے پیشتر اپنے گھر دیکھ لینا
محبت کے بازار میں اور کیا ہے
کوئی دل دکھائے اگر دیکھ لینا
مرے سامنے غیر سے بھی اشارے
ادھر بھی ادھر دیکھ کر دیکھ لینا
نہ ہو نازک اتنا بھی مشاطہ کوئی
دہن دیکھ لینا کمر دیکھ لینا
نہیں رکھنے دیتے جہاں پاؤں ہم کو
اسی آستانے پہ سر دیکھ لینا
تماشائے عالم کی فرصت ہے کس کو
غنیمت ہے بس اک نظر دیکھ لینا
دیے جاتے ہیں آج کچھ لکھ کے تم کو
اسے وقت فرصت مگر دیکھ لینا
ہمیں جان دیں گے ہمیں مر مٹیں گے
ہمیں تم کسی وقت پر دیکھ لینا
جلایا تو ہے داغ کے دل کو تم نے
مگر اس کا ہوگا اثر دیکھ لینا
داغ دہلوی