ابھی تک سنگ ریزے زخم سے نکلے نہیں

ابھی تک سنگ ریزے زخم سے نکلے نہیں
ابھی تک سنگ ریزے زخم سے نکلے نہیں
اور لرزش ناتوانی پر سراپا احتجاج بے زباں ہے
کون سڑکوں پر اٹھائے پوسٹر، بینر، سوالی جھنڈیاں
یوں عمر بھر پھرتا رہے
بیگار کاٹے
زخم اپنے مندمل ہونے کا موسم ہی بھلا بیٹھے ہیں مدت سے
مسیحائی خدا کے ہاتھ میں ہے
دے نہ دے مرضی
مگر ہر پل رگوں میں پھیلتا ناسور سارے بادشاہوں کو مسرت بخشتا ہے
ہم کہ لفظوں میں بڑے ہی کیمیا گر ہیں
اشاروں اور کنائیوں کے بڑے ہی ماہر فن ہیں
مدبر ہیں نصیحت میں
مگر پھر بھی
ابھی تک سنگ ریزے زخم سے نکلے نہیں
اور زخم اپنے مندمل ہونے کا موسم ہی بھلا بیٹھے ہیں مدت سے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *