کوئی رتجگہ کوئی رتجگہ
بڑی دھوپ ہے مری آنکھ میں
مرے گام گام پہ، پاؤں جلتے ہیں نیند کے
مجھے سرخ ڈوروں سے کیا غرض
جہاں خون گرتا ہے خواب کا
کسی رات کوئی ستم زدہ
مجھے جاگتا ہوا مل گیا تو کہوں گا، سو جا صنم زدہ
ابھی رات لیٹی ہے ہر طرف
مرے آئینے، مرا فرش ہیں
مرا جسم میرا درخت ہے
مجھے شائیں شائیں پکارتا ہے
ہمیشہ اگلے جہان سے
میں نہ سو سکا جو
تو یہ بھی ہو گا کہ آنکھ جل کے پگھل پڑے گی
کسی اندھیرے کی اوٹ میں
کوئی رتجگہ
کوئی رتجگہ
مرے انتظار میں سو گیا ہے
کسی سویرے کی اوٹ میں
فرحت عباس شاہ