ابھی تلک آنکھوں کے بادل میں کچھ پانی باقی ہے

ابھی تلک آنکھوں کے بادل میں کچھ پانی باقی ہے
لگتا ہے جیون میں کوئی گھڑی سہانی باقی ہے
سسّی پنّوں دفن ہوئے بیتی صدیوں کے ٹیلوں میں
تھل کے ریگستانوں کی اب صرف کہانی باقی ہے
ہم نے اپنا سب کچھ ہار دیا ہے تیرے جانے میں
ایک شکست بچی ہے باقی، اک ویرانی باقی ہے
یاد ہے تم نے ایک دفعہ اک بوسہ بھیجا تھا مجھ کو
دل چاہے تو لے جانا جو ایک نشانی باقی ہے
مجھ جیسوں کو اچھا گزرا وقت بھلانا مشکل ہے
تیرے جیسے لوگوں کو پھر بھی آسانی باقی ہے
کبھی کبھی کانٹا سا کوئی چبھ جاتا ہے سینے میں
وقت کے پیچھے شاید کوئی یاد پرانی باقی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *