ہے ابھی تلک سرِ ہر نفس کوئی انتظار کھڑا ہوا
کبھی آتے جاتے کُریدتا ہے رگِ سکوں
کبھی بیٹھے بیٹھے پکارتا ہے جنوں جنوں
مرے جسم پر ہیں اگی ہوئی کئی چھوٹی چھوٹی سی جھاڑیاں
جنہیں چوم لیں تو سیاہ ہیں
کوئی خار خار میں رکھ گیا ہے مسافتیں
وہ ہر ایک خار کے اگلے پار ملا
تو جھاڑیاں درمیان میں آ گئیں
وہ گلے ملا تو درخت تھا
وہ بچھڑ گیا تو لگا کہ دل میں ہے کوئی نیزہ گڑا ہوا
کبھی ٹھہرے ٹھہرے اچھال دیتا ہے خون کو
کبھی ہر درخت سے ہر سفر سے نکال دیتا ہے خون کو
ابھی چاپ ہے، ابھی در کھلا، ابھی آگیا
ابھی چھُو کے دیکھو تو خشک ہے
ابھی چُوم لو تو سیاہ ہے
فرحت عباس شاہ