کسی کی چشمِ خفا میں سوال ڈوب گیا
ہمارے ساتھ ہمیشہ یہی ہوا ہے یہاں
کہ آنے والے زمانے میں حال ڈوب گیا
ہمیں خبر ہی نہیں ہے کہ کب، کہاں، کیسے
سمندروں میں تمہارا ملال ڈوب گیا
رواں تھا سیلِ جنوں سوئے شہرِ لا اِمکاں
یہیں کہیں پہ تمہارا خیال ڈوب گیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)