کپکپاتی ہوئی آنکھوں
اور لرزتے ہوئے ہونٹوں کی قسم
کبھی کبھی
آنسو بھی کتنے عام، کتنے سطحی
اور کتنے سرسری ہو جاتے ہیں
نہ کچھ بتا سکتے ہیں
نہ دکھا سکتے ہیں
کاش ایسا ہوتا
ہم جب چاہتے خون رو سکتے
اور میں ہمیشہ خون روتا
اور تمہیں یاد کرتا
تمہارے بغیر سفر کتنا نوکیلا ہو گیا ہے
قدم قدم پر روح چیر دیتا ہے
اور سانس سانس پہ دل
لیکن چیری ہوئی روح
اور چھدے ہوئے دل سمیت
ابھی مجھے چلنا ہے
اور چلنا ضرور ہے
فرحت عباس شاہ