بھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں
کون جانے
کونسا لمحہ ہمارے ہاتھ سے پھسلے، گرے
اور پاؤں کی زنجیر ہو جائے
ابھی یہ دن جو لگتا ہے کہ ہم،ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں پل دو پل
نجانے کب کہاں دیوار بن جائیں
ابھی دو چار سانسیں بچ رہی ہیں
یہ تو جھونکا ہیں
کسے معلوم کس آہستگی سے یوں گزر جائے
کہ ہم دریاؤں کے دو مختلف نا آشنا گونگے کناروں پر کھڑے
اک دوسرے کی شکل تکنے کو ترس جائیں
مری آواز تیری یاد میں زندہ ہو بس
اور میں تری تصویر آنکھوں میں لئے رونا چھپاؤں
شہر والوں سے
ابھی کچھ پل ہیں ہمارے ہاتھ میں ہیں
ہم جو چاہیں گے تو کچھ کم کم بھی مل لیں گے
مگر جانے کہاں۔۔۔؟؟؟
کب۔۔۔؟؟؟
کون سا لمحہ۔۔۔؟؟؟
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)