اپنی بوسیدگیِ فکر کی آلائش سے مفر ہم کو نہیں

اپنی بوسیدگیِ فکر کی آلائش سے مفر ہم کو نہیں
اس لیے خوف میں پنہاں ہیں وجوہاتِ ستم
صبر کی اتنی شکایات کہاں تک سنتے
درد کی لہر سے بے زار رفیقانِ جہاں
اپنے مردار پہ مٹی ہی نہیں ڈال گئے
اب تو ہم اپنے تعفن کی سزا کاٹیں گے
اک جگہ ٹھہرے خیالات بھی پانی کی طرح ہوتے ہیں
ساکت و جامد و ویران و پشیمان نگر
بے یقینی کے تنفس کی ہی بے ترتیبی
ایک دن شہر کو لے ڈوبے گی
سارے بے نور مقامات اکٹھے ہو کر
اک جگہ ٹھہر گئے ہوں جیسے
ساری بے رنگ تمنائیں علیحدہ ہو کر
جا بجا پھیل گئیں خواب کے ویرانے میں
زندگی اور نگر اور نظر
بیت گئے، مر گئے انجانے میں
سوچ کا ذکر بہت ہے ملتا افسانے میں مگر
ذکر کے ہاتھ بندھے رہتے ہیں
خواب کے پاؤں نہیں ہیں
کہ نظر آئے گا چلتا پھرتا
بے یقنی میں گھری عقل سے بو آتی ہے
صبر ہر چیز کا حل ہوتا تو کیا اچھا تھا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *