اپنے انجام کی تمنا ہے

اپنے انجام کی تمنا ہے
غم کو کہرام کی تمنا ہے
یہ بھی کتنا عجیب ہے فرحت
دل کو آرام کی تمنا ہے
مجھ کو ہے آرزوئے گمنامی
اور تجھے نام کی تمنا ہے
اتنا اکتا گیا ہوں صحرا سے
اب در و بام کی تمنا ہے
میری آنکھیں تمہارا غم چاہیں
شام کو شام کی تمنا ہے
نیک نامی نہیں مری منزل
تیرے الزام کی تمنا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *