ہر کوئی بھٹکا ہوا درد لیے پھرتا ہے
جب تری یاد مری ذات کا در کھولتی ہے
چاند مرجھا کے خیالوں میں اتر آتا ہے
درد دریا کے کسی ٹوٹے ہوئے پُل کی طرح
پھینک دیتا ہے اچانک ہی کہیں بیچ ہمیں
کون آ آ کے مری شام کے دروازے پر
دستکیں دیتا ہے ناراض ہواؤں کی طرح
ہم ترے بارے میں لکھ آتے ہیں جن پیڑوں پر
دیر تک کالی خزاؤں میں گھرے رہتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)