جتنا ویران ہوا جاتا ہے گھر شام کے بعد
ٹوٹ پڑتی ہے نئی روز خبر شام کے بعد
وقت ہوتا ہے عذابوں میں بسر شام کے بعد
میری آنکھوں سے برستے ہوئے دریاؤں میں
ڈوب جاتی ہے تری راہ گزر شام کے بعد
تیرے بخشے ہوئے اندوہ کی گھبراہٹ کا
اور ہی رنگ سے ہوتا ہے اثر شام کے بعد
تم نہیں ہوتے تو پھر درد زمانے بھر کے
آن ملتے ہیں مجھے خاک بہ سر شام کے بعد
شاہ ہو کوئی، گدا ہو یا ولی ہو سب کا
فکر کے بوجھ سے جھک جاتا ہے سر شام کے بعد
مل کے اک شہر بھگو دیتے ہیں تنہائی کا
ایک میں ایک مرا دیدہءِ تر شام کے بعد
گھیر لیتے ہیں مجھے رستے تری یادوں کے
جب بھی کرتا ہوں ترے بعد سفر شام کے بعد
دن بھی ویراں ہی گزرتا ہے ہمارا لیکن
اور بڑھ جاتا ہے ویرانی کا ڈر شام کے بعد
ہجر کے سائے تو ہر روز ہی آ جاتے ہیں
کیا کبھی ہو گا تمہارا بھی گزر شام کے بعد
ایک بس تم ہی نہیں رات کے گھائل فرحت
خاک اڑتی ہے ہماری بھی ادھر شام کے بعد
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)