مجھ سے کہتا ہے کہ تقدیر بنا
پھر سے کھا اپنے مقدر سے فریب
راکھ سے پھر کوئی تصویر بنا
ایک دکھ سے میں ہوا ہوں آزاد
پھر کوئی حلقہِ زنجیر بنا
زندگی کا تو ہوا ہوں عادی
اس سے ہٹ کر کوئی تعزیر بنا
سچ کی پاداش میں برباد نہ کر
شہر بھر میں مری توقیر بنا
فرحت عباس شاہ