بے بسی بول پڑی ہے یارو
میرے سینے میں اداسی کی طرح
دشت میں شام گڑی ہے یارو
دل کی اک کچی سی دیوار کے پاس
یاد چپ چاپ کھڑی ہے یارو
میتیں پہنچ گئی ہیں گھر میں
بین کرنے کی گھڑی ہے یارو
ایک بے نام و نشاں آسائش
سب کے ماتھے پہ جڑی ہے یارو
دل سے اک معرکہِ فطرت میں
شب کئی بار لڑی ہے یارو
ذات سے دور تلک پھیلی ہوئی
بے یقینی کی گھڑی ہے یارو
آج حالات ہی کچھ ایسے ہیں
آج خود اپنی پڑی ہے یارو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)