کوئی آتا ہی نہیں پہچان میں
وقت کی تخصیص ہی جاتی رہی
دن گزرتا ہے شبِ ویران میں
یوں اچانک ڈر گیا کمرے سے میں
صبح تک بیٹھا رہا دالان میں
دھڑکنیں معمول پر آتی نہیں
جان آتی ہی نہیں ہے جان میں
تتلیوں سی گم ہوئیں نظریں مری
آپ کے بھیجے ہوئے گلدان میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس اداس)