آج اک اور خلا شاملِ احوال ہوا
آج اک اور ہوئی ناکامی
آج اک اور پلٹنا گیا بیکار زبوں حالی میں
آج اک اور ترقی نے تنزل دیکھا
آج اک اور ستارے نے کہا تاریکی
آج اور نظارے نے کہا سنسانی
آج اک اور کنارے نے کہا دریا سے
تھک گئے ہو تو ذرا سستا لو
آج اک اور سہارے نے کہا ختم ہوا۔۔۔ ہائے میں ختم ہوا
آج اک اور گرا اسپِ خیال
آج اک اور بہانہ ہوا دل جلنے کا
آج اک اور زمانہ ہوا اک اور زمانے سے جدا
آج اک اور خدا پہلے خداوند سے ناراض ہوا
آج اک اور شجر اپنی جڑوں سے اکھڑا
آج اک اور محل خاک میں خاشاک ہوا
آج اک اور سفر لوٹ گیا
آج اک اور نگر روٹھ گیا
آج اک اور بھنور پیدا ہوا
آج اک اور اداسی نے لیا اگلا جنم
آج اک اور محبت پہ محبت روئی
آج اک اور ہنسی دل پہ ہنسی
آج اک اور صدی ختم ہوئی
آج اک اور صدی ختم ہوئی
آج اک اور نئے وقت کا آغاز ہوا
فرحت عباس شاہ