آج کل دستِ خیر خواہ میں ہے

آج کل دستِ خیر خواہ میں ہے
زندگی درد کی پناہ میں ہے
وہ مزا ہجر سے مَفَر میں کہاں
جو مزا ہجر سے نباہ میں ہے
سانس سے کھینچ دل کو پڑتی ہے
کوئی زنجیر میری آہ میں ہے
دوں گواہی ترے مظالم کی
اتنی ہمت تو مجھ گواہ میں ہے
جانے آگے کہاں تلک جاؤں
ایک منزل تو میری راہ میں ہے
کتنے لاکھوں غلام دیتی ہے
وہ غلامی جو بادشاہ میں ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *