شاید اس بار ریاضت کوئی کام آئی ہے
دھوپ اور بے سرو سامانی سے گھبرائے ہوئے
مستقل عالم ویرانی سے اکتائے ہوئے
صدیوں کے مہجور پرندوں کی طرح
ہم نے۔۔۔
اک دوجے کی چھاؤں میں گزاری ہے جو شب
کل کسی روگ میں ڈھل جائے گی
ہم جو مدت سے مقدر کے شکنجوں میں پھنسے
پھڑ پھڑائے ہیں ذرا مل کے تو ہنستی ہے ہوا
مسکرائے ہیں تو حیران ہوئے ہیں لمحے
بدنصیبی بھی نظر آئی ہے مایوس ہمیں پہلی دفعہ
آج کی رات ریاضت کوئی کام آئی ہے
آج کی رات کا موسم ہی عجب ہے کہ صبا
چل کے خود رات کے اس پل سر بام آئی ہے
آج ہم وقت کو کس موڑ پہ لے آئے ہیں
آج کی رات سحر آئے گی لیکن شاید
ہم پرندے یہی سمجھیں گے کہ شام آئی ہے
فرحت عباس شاہ