آجا رات سہیلی کھیلیں اک دوجے کا غم

آجا رات سہیلی کھیلیں اک دوجے کا غم
برس برس کے بارش وار اچانک جائیں تھم
تاروں کا اک جال ہو دل میں اور خاموش فضا
پھر اس سارے منظر میں کچھ اور بھی ہو پُر نم
ہولے ہولے سرد ہوا سہلائے تیری یاد
اور یہ خوف کہ اکھڑ نہ جائے بیماروں کا دم
ہم بھی کچھ آواز اٹھائیں اس بے رنگی میں
آنکھوں میں پیلے بینر ہوں دل میں سرخ عَلَم
موت سے کب کچھ ختم ہوا ہے ان دنیاؤں میں
ایک سفر کی موت کے پیچھے لاکھوں اور جنم
اور بھڑک اٹھتی ہے اس مجبور دیے کی لو
دل کے بجھ جانے سے درد نہیں ہوتا مدھم
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *