آخری انسان

آخری انسان
جب میں تم سے
کائناتی تنہائی کی بات کروں گا
اور بتاؤں گا کہ میں اس پوری کائنات میں
اکیلا اور آخری ہوں
تو تم مجھے کیا جواب دو گی
یہی نا کہ بس خاموش ہی رہو گی
اور تمہاری خاموشی جلے ہوئے پودوں پر اتر جائے گی
میں تو زمین بھی نہیں کھود سکتا
اور پھر مجھے مری ہوئی چیز نکالنے کا کیا فائدہ
اور الجھنیں تو ویسے بھی مر کر کچھ زیادہ ہی مٹی ہو جاتی ہیں
ہماری تو ہڈیاں بھی اتنی کالص نہیں
کہ سالہا سال اور قرن ہا قرن باقی رہ جائیں
جھوٹ
فریب
بدنیتی
کمینگی
سستی
بے کاری
نفرت
تخریب
اور دشمنی
ویسے بھی ہڈیوں کو ناخالص اور کمزور کر دیتی ہے
اور فاسفورس کو جلا دیتی ہے
اور راکھ پر مٹی ڈال دیتی ہیں
ہر طرف جلا ہوا فاسفورس اور خشک مٹی
اور پودوں کی راکھ بکھری پڑی ہے
ہوا ہمیشہ کہتی رہی ہے
چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سنبھال کر رکھ لو
اور بڑے بڑے غموں کا تحفظ کرو
اور ان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا سلیقہ سیکھو
لیکن ہوا کی کون سنتا ہے
جانے اتنی زیادہ بردبادیاں
کب کم ہوں گی
ختم تو شاید کبھی بھی نہ ہوں
ذرا کم ہو جائیں تو دھڑکنیں درست ہوں
دل برباد کرنے والی بربادیاں
اور
موت آباد کرنے والی بربادیاں 
جو سورج کو ہاتھ لگانے کی دعوت دیتی ہیں
اور بد بخت جانور کی طرح رو پڑتی ہیں
اور چاروں طرف منحوس بین
اور سسکیاں اڑتی پھرتی نظر آتی ہیں
سوچوں کے پیچ و تاب
بندوقوں کی نالیوں میں پڑے ہوئے گرووز
کی طرح نفرت کو اس زور سے گھما کر پھینکتے ہیں
راستے میں آنے والی روحیں کٹتی پھٹتی چلی جاتی ہیں
اور بربادی فروغ پاتی چلی جاتی ہے
بدنصیبی کی مستقل مزاجی سے لگتا ہے
ہمار سروں پر
آسمان گرہن لگا ہوا ہے
تم رات کو کیا کہو گی
نیند؟
پاگل
رات نیند نہیں ہوتی
روز آجانے والی اداسی ہوتی ہے
بربادی کی چھوٹی بہن
اور تم کیا کہو گی
دلدلوں کے بارے میں
جن میں راہ بھٹکے ہوئے دل
اچانک جا پڑتے ہیں
اور آہستہ آہستہ دھنسنا شروع ہو جاتے ہیں
ایسے دلوں
اور ایسی دلدلوں کے بارے میں تم کیا کہو گی
یہی نا! کہ مجھے کیا پتہ۔۔۔
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *