شام کا اپنا ہی انداز ہے دکھ دینے کا
ہر نئے روز لہو رنگ شفق
منظرِ خونِ سفر یاد دلا جاتی ہے
نیم تاریکی اترتی ہے رگوں میں اور پھر
ان گنت گمشدہ شہروں میں لیے پھرتی ہے
لوٹنے والے پرندے کسی آبادی سے
بن کہے کچھ بھی گزر جاتے ہیں
ان پرندوں کی خموشی کا بھی اپنا دکھ ہے
ڈھل گئی عمر کی مانند تری چاہ اگر
اور ٹھٹھرتے ہوئے موسم نے سنبھالا نہ لیا
اور اگر بیٹھ گئے سڑکوں پہ آکر فٹ پاتھ
ان پہ سوئے ہوئے پردیسی بھی گر سوئے رہے
جانتے ہو کہ یہاں پچھلا جنم کوئی نہیں
اور نہ کوئی اگلا جنم ہے کہ عقائد کی تسلی میں کہیں دم لے لیں
وقت نازک ہے
مگر پھر بھی ابھی ہاتھ میں ہے
ایک اک لمحہ کسی نالاں و ناراض وفادار کی مانند گزرتے ہوئے
کچھ سوچتا ہے رکتا ہے
تم جو تقسیم پہ خوش ہو تو چلو یونہی سہی
ہم نے زِچ ہو کے
ترا ہجر سجا ڈالا ہے بازاروں میں
تُو نے سمجھا ہی نہیں
کتنا مشکل ہے کہ بیچے کوئی زیور اپنا
آخری سسکی اگر آدھی گلے میں رہ جائے
کاش مل جائے کوئی کرب سمجھنے والا
آخری ہچکی ابھی دور سہی دور سہی
شام کا اپنا ہی انداز ہے دکھ دینے کا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)