اداس پیڑوں کی دل پر ہے باڑ ہجر کی شام

اداس پیڑوں کی دل پر ہے باڑ ہجر کی شام
کسی کو توڑ کسی کو اکھاڑ ہجر کی شام
مری نگاہ پہ تو نے بٹھا دیا رستہ
نحیف سینے پہ رکھ دی پہاڑ ہجر کی شام
نہ کوئی گیت نہ کوئی صدا پرندے کی
بسی ہوئی ہے نگر میں اجاڑ ہجر کی شام
ترے ہی دم سے طبیعت میں سوز ہے ورنہ
یہ دن تو ایسے ہے جیسے کباڑ ہجر کی شام
چلو کچھ اور نہیں تو ہمی پلٹ جائیں
کھلے رکھے ہیں کسی نے کواڑ ہجر کی شام
زیادہ تر تو ہے شفاف آئینہ دل کا
کہیں کہیں پہ ہے لیکن دراڑ ہجر کی شام
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *