اسے نکال دیا زندگی سے اب کیا ہے
کبھی جو کھل کے کہو داستاں تو بات بنے
وگرنہ کس کو خبر حرف زیرِ لب کیا ہے
کسی طرح سے الگ ہو سکیں تو پوچھیں بھی
ضمیر خواہشیں تکرار روز و شب کیا ہے
دماغ کہتا ہے کیا اور دل کا ڈھپ کیا ہے
ہمیں سمجھ ہی نہیں آ رہا یہ سب کیا ہے
ابھی بھٹکنا ہے جانے کہاں کہاں ہم کو
ابھی یہ علم نہیں ہو سکا کہ رب کیا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)