اداسی تم تو شاہد ہو
گلابی منظروں نے جب بھی میرے ہاتھ پیلے کرنا چاہے ہیں
میں کیسے ہچکچایا ہوں
سنہری زلف کے پیچوں نے مجھ کو باندھنا چاہا
تو کتنا کسمسایا ہوں
میں اپنے دشت پہ قانع
میں اپنی پیاس پہ راضی
میں اپنے بانجھ پن پہ خوش
برستے بادلوں سے کس طرح بچ بچ کے نکلا ہوں
میں لوگوں کے مسرت خیز لمحوں میں
خوشی سے کب ہوا شامل
میں کتنے کرب سے گزرا ہوں بے معنی ہنسی ہنس کے
مجھے شک ہے
کہ اس کو جب بتاؤں گا
کہ میں نے اس طرح تیری جدائی کو منایا ہے
تو وہ کچھ بھی نہ مانے گی
وہ شکّی ہے
یقیں کچھ کم ہی کرتی ہے
مگر اس پل
اداسی تم تو شاہد ہو
فرحت عباس شاہ