نہ اُس کی آنکھ سے آنسو تھمے ہیں
اور نہ اس کے زرد چہرے پر خوشی کا رنگ آیا ہے
جدائی سانپ ہے
عدم تحفظ سانپ سے بھی کچھ زیادہ زہر رکھتا ہے
اسے سلگے ہوئے حالات سے کیسے نکالوں
ہاتھ جلتے ہیں
پروں میں اس قدر طاقت نہیں ہے کہ
کسی محفوظ اور قائم شجر پر گھونسلہ تعمیر کر ڈالوں
مرے ہاتھوں کی لرزش قید کر ڈالو
کراہیں چھین لو
افسوس کو زندہ نہ رہنے دو
مجھے اقرار ہے
بے شک
اداسی رائیگاں میری
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)