اداسی کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا
یہ پانی کی طرح ہر ایک سانچے
اور ہر اک دل میں اتر کر ناک نقشہ ڈھونڈ لیتی ہ
یہ آنکھوں میں اتر کر جھیل بنتی ہے
قیامت کی اکیلی اور
مرے من سی فضاؤں میں کہیں پر دور کوئی چیل بنتی ہے
اداسی کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا
یہ سینے میں اتر کر دل
لرزتی سانس پر سل۔۔۔ اور
لبوں پر دیر سے ٹھٹھرے ہوئے الفاظ بن کر
دکھ کی تصویریں بناتی لوٹ جاتی ہے
اداسی کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا
اداسی تو مصور ہے
جو خود چہرے بناتی ہے۔
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)