وہ چل پڑا، آہستہ آہستہ
اور وقت اڑنے لگ گیا
بہت تیزی سے راستہ چھوٹا تھا
آرزو لمبی تھی
ہمسفری مختصر
مسافت بہت طویل
قدم قدم پر وحشتِ جاں کی یلغار
قدم قدم پر
اضطراب کا ایک نیا قافلہ ہمراہ ہو جاتا تھا
اس کی سماعت قریب قریب بند ہو گئی تھی
آس پاس کی آوازیں اسے بہت دور سنائی دے رہی تھیں
وہ صرف اپنے دل کی دھڑکن سُن رہا تھا
جو ہر طرف ہر سُو گونج رہی تھی
اور اک شور
بے چینی اور اضطراب کا شور
خاموشی کا شور
بہت کچھ کہنے کی خواہش اور نہ کہہ پانے کا شور
اس نے سوچا
میں اسے کہوں
میں تو ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوتا ہوں
کب میں نے تمہیں اکیلا ہونے دیا ہے
اس وقت بھی تمہارے ساتھ ہوتا ہوں
جب تم دھوپ میں نکلتی ہو
تم کبھی اپنے اندر تو جھانکو
دہلتے، سلگتے سورج کے نیچے
وہ جو تمہارے اندر
ایک نرم اور ٹھنڈا احساس لہریں مارتا ہے
وہ میں ہی تو ہوتا ہوں
تاریک اور اندھیرے راستوں میں
وہ جو ایک روشن چراغ
تمہارے اندر جگمگاتا ہے
وہ میں ہی تو ہوتا ہوں
بُرے اور خراب موسموں میں
وہ جو ایک چادر سی تمہارے سر پہ تن جاتی ہے
وہ جو ایک حفاظتی حصار سا
تمہارے گرد قائم ہو جاتا ہے
وہ میں ہی تو ہوتا ہوں
بھلا میں نے تمہیں کب اکیلے چھوڑا ہے
تم جاگتی ہو
تو ایک پوشیدہ اعتماد کی صورت
تمہارے اندر رہتا ہوں
اور سو جاتی ہو
تو خوابوں کا پس منظر بن کے
تمہاری حفاظت کرتا ہوں
فرحت عباس شاہ